امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شام سے امریکی فوج کا انخلا شروع ہو گیا ہے اور اگر ترکی نے کردوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ ترکی کو اقتصادی طور پر تباہ کر دے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ بچے کچھے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو فضا سے نشانہ بنایا جائے گا اور بیس میل طویل ایک ‘سیف زون’ یا محفوظ علاقہ بنایا جائے گا۔
ان کی یہ ٹویٹ بظاہر ان پر کی جانے والی اس تنقید کے رد عمل میں کی گئی جس میں کہا جا رہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا سے خطے میں امریکی اتحادیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی کہ کس طرح امریکہ ترکی کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے تاہم ان کے اپنے مشیر بھی اس پر بظاہر حیران دکھائی دیے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ترکی کی معیشت کو کس طرح تباہ کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا یہ تو آپ کو صدر سے پوچھنا پڑے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہم نے کئی جگہوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں وہ شاید اس ہی کی بات کررہے ہوں گے۔’
ترک وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کو مستر کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ یہ کئی بار کہہ چکے ہیں وہ کس دھمکی سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے والے نہیں ہیں۔’
انھوں نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی نوعیت کے اس طرح کے معاملات پر سوشل میڈیا یا ٹوئٹر پر بات نہیں کی جاتی۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں امریکی کی طرف سے ترکی پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ناکام ہو گئی تھیں۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ اگست میں ایک امریکی عیسی راہب کی گرفتاری پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعد امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس سے ترکی کی کرنسی لرا پر شدید منفی اثرا ہو تھا اور چند ماہ بعد اس راہب کو رہا کر دیا گیا تھا۔
اسی دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے ترجمان ابراہیم کلن نے کہا ہے کہ ترکی امید کرتا ہے کہ امریکہ سٹریٹجک پارٹنرشپ کی پاسداری کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گرد نہ آپ کہ اتحادی ہو سکتے ہیں نہ شراکت دار۔